Iztirab

Iztirab

موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے

موجۂ خون پریشان کہاں جاتا ہے 
مجھ سے آگے مرا طوفان کہاں جاتا ہے 
چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی 
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے 
میں تو جاتا ہوں بیابان نظر کے اس پار 
میرے ہمراہ بیابان کہاں جاتا ہے 
بات یونہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر 
کیا بتاؤں کہ مرا دھیان کہاں جاتا ہے 
گھر بدلنا تو بہانہ ہے بہانہ کر کے 
اندر اندر ہی سے انسان کہاں جاتا ہے 
داستاں گو کی نشانی کوئی رکھی ہے کہ وہ 
داستاں گوئی کے دوران کہاں جاتا ہے 
اب تو دریا میں بندھے بیٹھے ہیں دریا کی طرح 
اب کناروں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے 

شاہین عباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *