Iztirab

Iztirab

مچلتی ہے مرے آغوش میں خوشبوئے یار اب تک

مچلتی ہے مرے آغوش میں خوشبوئے یار اب تک 
مری آنکھوں میں ہے اس سحر رنگیں کا خمار اب تک 
کوئی آتا نہیں اب دل کی بستی میں مگر پھر بھی 
امیدوں کے چراغوں سے ہیں روشن رہ گزار اب تک 
ابھی تک نصف شب کو چاندنی گاتی ہے جھرنوں میں 
نہیں بدلی شباب منتظر کی یادگار اب تک 
جلا رکھے ہیں شہراہوں پہ اشکوں کے دئے کب سے 
نہیں گزرا کبھی اس سمت سے وہ شہسوار اب تک 
شکست آرزو کو عشق کا انجام کیوں سمجھوں 
مقابل ہے مرے آئینۂ لیل و نہار اب تک 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *