Iztirab

Iztirab

مہاتما گاندھی کا قتل

مشرق کا دیا گل ہوتا ہے مغرب پہ سیاہی چھاتی ہے
ہر دل سن سا ہو جاتا ہے ہر سانس کی لو تھراتی ہے
اتر دکھن پورب پچھم ہر سمت سے اک چیخ آتی ہے
نوع انساں کاندھوں پہ لئے گاندھی کی ارتھی جاتی ہے
آکاش کے تارے بجھتے ہیں دھرتی سے دھواں سا اٹھتا ہے
دنیا کو یہ لگتا ہے جیسے سر سے کوئی سایا اٹھتا ہے
کچھ دیر کو نبض عالم بھی چلتے چلتے رک جاتی ہے
ہر ملک کا پرچم گرتا ہے ہر قوم کو ہچکی آتی ہے
تہذیب جہاں تھراتی ہے تاریخ بشر شرماتی ہے
موت اپنے کٹے پر خود جیسے دل ہی دل میں پچھتاتی ہے
انساں وہ اٹھا جس کا ثانی صدیوں میں بھی دنیا جن نہ سکی
مورت وہ مٹی نقاش سے بھی جوبن کے دوبارہ بن نہ سکی
دیکھا نہیں جاتا آنکھوں سے یہ منظر عبرتناک وطن
پھولوں کے لہو کے پیاسے ہیں اپنے ہی خس و خاشاک وطن
ہاتھوں سے بجھایا خود اپنے وہ شعلہ روح پاک وطن
داغ اس سے سیہ تر کوئی نہیں دامن پہ ترے اے خاک وطن
پیغام اجل لائی اپنے اس سب سے بڑے محسن کے لئے
اے وائے طلوع آزادی آزاد ہوئے اس دن کے لئے
جب ناخن حکمت ہی ٹوٹے دشوار کو آساں کون کرے
جب خشک ہوا ابر باراں ہی شاخوں کو گل افشاں کون کرے
جب شعلہ مینا سرد ہو خود جاموں کو فروزاں کون کرے
جب سورج ہی گل ہو جائے تاروں میں چراغاں کون کرے
ناشاد وطن افسوس تری قسمت کا ستارہ ٹوٹ گیا
انگلی کو پکڑ کر چلتے تھے جس کی وہی رہبر چھوٹ گیا
اس حسن سے کچھ ہستی میں تری اضداد ہوئے تھے آ کے بہم
اک خواب و حقیقت کا سنگم مٹی پہ قدم نظروں میں ارم
اک جسم نحیف و زار مگر اک عزم جوان و مستحکم
چشم بینا معصوم کا دل خورشید نفس ذوق شبنم
وہ عجز غرور سلطاں بھی جس کے آگے جھک جاتا تھا
وہ موم کہ جس سے ٹکرا کر لوہے کو پسینہ آتا تھا
سینے میں جو دے کانٹوں کو بھی جا اس گل کی لطافت کیا کہئے
جو زہر پئے امرت کر کے اس لب کی حلاوت کیا کہئے
جس سانس میں دنیا جاں پائے اس سانس کی نکہت کیا کہئے
جس موت پہ ہستی ناز کرے اس موت کی عظمت کیا کہئے
یہ موت نہ تھی قدرت نے ترے سر پر رکھا اک تاج حیات
تھی زیست تری معراج وفا اور موت تری معراج حیات
یکساں نزدیک و دور پہ تھا باران فیض عام ترا
ہر دشت و چمن ہر کوہ و دمن میں گونجا ہے پیغام ترا
ہر خشک و تر ہستی پہ رقم ہے خط جلی میں نام ترا
ہر ذرہ میں تیرا معبد ہر قطرہ تیرتھ دھام ترا
اس لطف و کرم کے آئیں میں مر کر بھی نہ کچھ ترمیم ہوئی
اس ملک کے کونے کونے میں مٹی بھی تری تقسیم ہوئی
تاریخ میں قوموں کی ابھرے کیسے کیسے ممتاز بشر
کچھ ملک کے تخت نشیں کچھ تخت فلک کے تاج بسر
اپنوں کے لئے جام و صہبا اوروں کے لئے شمشیر و تبر
نر‌د و انساں ٹپتی ہی رہی دنیا کی بساط طاقت پر
مخلوق خدا کی بن کے سپر میداں میں دلاور ایک تو ہی
ایماں کے پیمبر آئے بہت انساں کا پیمبر ایک تو ہی
بازوئے فردا اڑ اڑ کے تھکے تری رفعت تک جا نہ سکے
ذہنوں کی تجلی کام آئی خاکے بھی ترے ہاتھ آ نہ سکے
الفاظ و معنی ختم ہوئے عنواں بھی ترا اپنا نہ سکے
نظروں کے کنول جل جل کے بجھے پرچھائیں بھی تیری پا نہ سکے
ہر علم و یقیں سے بالاتر تو ہے وہ سپہر تابندہ
صوفی کی جہاں نیچی ہے نظر شاعر کا تصور شرمندہ
پستئ سیاست کو تو نے اپنے قامت سے رفعت دی
ایماں کی تنگ خیالی کو انساں کے غم کی وسعت دی
ہر سانس سے درس امن دیا ہر جبر پہ داد الفت دی
قاتل کو بھی گر لب ہل نہ سکے آنکھوں سے دعائے رحمت دی
ہنسا کو اہنسا کا اپنی پیغام سنانے آیا تھا
نفرت کی ماری دنیا میں اک پریم سندیسہ لایا تھا
اس پریم سندیسے کو تیرے سینوں کی امانت بننا ہے
سینوں سے کدورت دھونے کو اک موج ندامت بننا ہے
اس موج کو بڑھتے بڑھتے پھر سیلاب محبت بننا ہے
اس سیل رواں کے دھارے کو اس ملک کی قسمت بننا ہے
جب تک نہ بہے گا یہ دھارا شاداب نہ ہوگا باغ ترا
اے خاک وطن دامن سے ترے دھلنے کا نہیں یہ داغ ترا
جاتے جاتے بھی تو ہم کو اک زیست کا عنواں دے کے گیا
بجھتی ہوئی شمع محفل کو پھر شعلہ رقصاں دے کے گیا
بھٹکے ہوئے گام انساں کو پھر جادہ انساں دے کے گیا
ہر ساحل ظلمت کو اپنا مینار درخشاں دے کے گیا
تو چپ ہے لیکن صدیوں تک گونجے گی صدائے ساز تری
دنیا کو اندھیری راتوں میں ڈھارس دے گی آواز تری

آنند نرائن ملا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *