میرؔ کیا چیز ہے سوداؔ کیا ہے مجھ کو ان لوگوں کی پروا کیا ہے یہ اگر عرصے میں آئے زیں پیش دیکھ تو میرا بھی شہرہ کیا ہے اے صبا شمع سحر کو نہ ستا اب بجھی جائے ہے عرصہ کیا ہے گر کیا قتل کسی کو تو کیا چلو اس بات کا چرچا کیا ہے ایک دن اس کے میں در تک جو گیا یہ سمجھ دیکھوں تو ہوتا کیا ہے تھے کئی شخص بہم حرف زناں میں کہا ان سے یہ غوغا کیا ہے سن کے واں سے جو نکل آیا ایک وہ مجھے دیکھ کے کہتا کیا ہے آپ جو دیر سے اس جا ہیں کھڑے یہ کہیں آپ نے بیچا کیا ہے مل گئے خاک میں ہم اب تو کہہ مصحفیؔ تیری تمنا کیا ہے
غلام ہمدانی مصحفی