Iztirab

Iztirab

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی

میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازؤں پہ نگاہ کر 
جو غرور تھا وہ غرور ہے
ابھی رزمگاہ کے درمیاں
ہے میرا نشان کُھلا ہُوا
ابھی تازہ دم ہے میرا فرس
نئے معرکوں پہ تلا ہُوا
مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر
ابھی میرے کف کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے میرا لہو 
یہ میرے نصب کی سرشت ہے
میں اسی قبیلے کا فرد ہوں
جو حریفِ سیل بلا رہا
اُسے مرگزار کا خوف کیا
جو کفن بدوش سدا رہا
وہ جو دشت جاں کو چمن کرے
یہ شرف تو میرے لہو کا ہے
مجھے زندگی سے عزیز تر ہے
یہ جو کھیل تیغ و گُلو کا ہے
سو میرے غنیم نہ بُھول تُو 
کہ ستم کی شب کو زوال ہے
تيرا جور و ظلم بلا سہی 
میرا حوصلہ بھی کمال ہے
تجھے مان جوش و گرز پر
مجھے ناز زخم بدن پہ ہے
یہی نامہ بر ہے بہار کا 
.جو گلاب میرے کفن پہ ہے

احمد فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *