Iztirab

Iztirab

میرے سینے سے ترا تیر جب اے جنگجو نکلا

میرے سینے سے ترا تیر جب اے جنگجو نکلا 
دہان زخم سے خوں ہو کہ حرف آرزو نکلا 
میرا گھر تری منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع 
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہ رو نکلا 
پھرا گر آسماں تُو شوق میں ترے ہے سرگرداں 
اگر خورشید نکلا ترا گرم جستجو نکلا 
مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم 
وہ تھا لبریز غم اِس خمکدہ سے جُو سبو نکلا 
تیرے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا مرا 
رہی حسرت کے دم مرا نہ ترے روبرو نکلا 
کہیں تُجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اِک جہاں ڈھونڈا 
پھر آخر دِل ہی میں دیکھا بغل ہی میں سے تُو نکلا 
خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کے جب رویا 
تُو جُو آنسو میری آنکھوں سے نکلا سرخ رو نکلا 
گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹی سر سوزن 
مگر تھا دِل میں جُو کانٹا نہ ہرگز وہ کبھو نکلا 
اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو 
.جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وُہ عدو نکلا 

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *