میرے سینے سے ترا تیر جب اے جنگجو نکلا دہان زخم سے خوں ہو کہ حرف آرزو نکلا میرا گھر تری منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہ رو نکلا پھرا گر آسماں تُو شوق میں ترے ہے سرگرداں اگر خورشید نکلا ترا گرم جستجو نکلا مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم وہ تھا لبریز غم اِس خمکدہ سے جُو سبو نکلا تیرے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا مرا رہی حسرت کے دم مرا نہ ترے روبرو نکلا کہیں تُجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اِک جہاں ڈھونڈا پھر آخر دِل ہی میں دیکھا بغل ہی میں سے تُو نکلا خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کے جب رویا تُو جُو آنسو میری آنکھوں سے نکلا سرخ رو نکلا گھسے سب ناخن تدبیر اور ٹوٹی سر سوزن مگر تھا دِل میں جُو کانٹا نہ ہرگز وہ کبھو نکلا اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو .جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وُہ عدو نکلا
شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ