Iztirab

Iztirab

میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

یہ گاؤں کا منظر سناٹا اور شام کی دھندلی تاریکی 
اک شام بہت رنگین مگر مفلس کی نگاہوں میں پھیکی 
دھرتی پہ یہ پانی سونے کا آکاش پہ نہریں چاندی کی 
یہ چاند یہ تارے یہ دریا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 
یہ شہر کی چلتی سڑکوں پر ہر سمت دکانیں نورانی 
بجلی میں بھی جلتا ہو جیسے افلاس کے پتے کا پانی 
چیزوں کی گرانی میں شامل غربت کے لہو کی ارزانی 
یہ ساز یہ سامان عشرت میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 
راتوں کے اندھیرے میں جگ مگ جگ مگ یہ فضا میخوانوں کی 
میزوں پہ نظارے مستی کے بہکی ہوئی لے دیوانوں کی 
بوتل کی نوائے کل کل میں ہلکی سی خنک پیمانوں کی 
یہ شیشہ یہ ساقی یہ صہبا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 
سڑکوں پہ حسینوں کا تانتا جادو کا پرا چلتا پھرتا 
ساڑی کی لپیٹوں سے جن کی چھلکے ہے جوانی کی صہبا 
مستی کے قدم سنبھلے سنبھلے آنچل کا سرا ڈھلکا ڈھلکا 
یہ حسن و جوانی رنگ و ادا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 
آنکھوں پہ مری احساس ہے کیا سبزوں پہ اگر ہے برنائی 
کیوں پوچھنے جاؤں کیاری میں پھولوں کا مزاج رعنائی 
کیا کام ہے مجھ کو گلشن سے کلیاں ہو کھلی یا مرجھائی 
یہ پھول یہ شبنم شیر و فضا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 
کالج کی یہ تعمیر خنداں ممنون غموں لام نہیں 
اس میں کسی مفلس کے گھر کے غمگین پسر کا نام نہیں 
سامان تجارت ہے یہ بھی سامان مفاد عام نہیں 
یہ علم یہ حکمت ہوش ربا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 
بے جان ہو جب نقش ہستی تصویر تمنا کیا بولے 
تاراج کے خونی پنجے میں تہذیب کی مینا کیا بولے 
چیلوں کے نجاست کھانے میں بیچارہ پپیہا کیا بولے 
یہ نغمہ یہ شعر و ساز و نوا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں 

نشور واحدی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *