Iztirab

Iztirab

میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو

میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو 
یہ سب کچھ ہو مگر میں کہہ نہیں سکتا کہ کیا تم ہو 
تمہارے نام سے سب لوگ مجھ کو جان جاتے ہیں 
میں وہ کھوئی ہوئی اک چیز ہوں جس کا پتا تم ہو 
محبت کو ہماری اک زمانہ ہو گیا لیکن 
نہ تم سمجھے کہ کیا میں ہوں نہ میں سمجھا کہ کیا تم ہو 
ہمارے دل کو بحر غم کی کیا طاقت جو لے بیٹھے 
وہ کشتی ڈوب کب سکتی ہے جس کے نا خدا تم ہو 
بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا 
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو 
مصیبت کا تعلق ہم سے کچھ بھی ہو تو راحت ہے 
مرے دل کو خدا وہ درد دے جس کی دوا تم ہو 
کہیں اس پھوٹے منہ سے بے وفا کا لفظ نکلا تھا 
بس اب طعنوں پہ طعنے ہیں کہ بے شک با وفا تم ہو 
قیامت آئے گی یا آ گئی اس کی شکایت کیا 
قیامت کیوں نہ ہو جب فتنہ روز جزا تم ہو 
الجھ پڑنے میں کاکل ہو بگڑنے میں مقدر ہو 
پلٹنے میں زمانہ ہو بدلنے میں ہوا تم ہو 
وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی 
.نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو

مضطر خیرآبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *