Iztirab

Iztirab

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے 
میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے 
میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی 
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے 
مجھے چھوڑ دے مرے حال پر ترا کیا بھروسہ ہے چارہ گر 
یہ تری نوازش مختصر مرا درد اور بڑھا نہ دے 
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں 
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے 
وہ اٹھے ہیں لے کے خم و سبو ارے او شکیلؔ کہاں ہے تو 
ترا جام لینے کو بزم میں کوئی اور ہاتھ بڑھا نہ دے

شکیل بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *