Iztirab

Iztirab

میں بچ گئی ماں

میں بچ گئی ماں 
میں بچ گئی ماں 
ترے کچے لہو کی مہندی 
مرے پور پور میں رچ گئی ماں 
میں بچ گئی ماں 
گر میرے نقش ابھر آتے 
وہ پھر بھی لہو سے بھر جاتے 
مری آنکھیں روشن ہو جاتی تو 
تیزاب کا سرمہ لگ جاتا 
سٹے وٹے میں بٹ جاتی 
بے کاری میں کام آ جاتی 
ہر خواب ادھورا رہ جاتا 
مرا قد جو تھوڑا سا بڑھتا 
مرے باپ کا قد چھوٹا پڑتا 
مری چنری سر سے ڈھلک جاتی 
مرے بھائی کی پگڑی گر جاتی 
تری لوری سننے سے پہلے 
اپنی نیند میں سو گئی ماں 
انجان نگر سے آئی تھی 
انجان نگر میں کھو گئی ماں 
میں بچ گئی ماں 
میں بچ گئی ماں 

زہرا نگاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *