Iztirab

Iztirab

میں ساز ڈھونڈتی رہی

احساس اولیں
ایک موہوم اضطراب سا ہے
اک تلاطم سا پیچ و تاب سا ہے
امڈے آتے ہیں خودبخود آنسو
دل پہ قابو نہ آنکھ پر قابو
دل میں اک درد میٹھا میٹھا سا
رنگ چہرے کا پھیکا پھیکا سا
زلف بکھری ہوئی پریشاں حال
آپ ہی آپ جی ہوا ہے نڈھال
سینے میں اک چبھن سی ہوتی ہے
آنکھوں میں کیوں جلن سی ہوتی ہے
سر میں پنہاں تصور موہوم
ہاے یہ آرزوے نامعلوم
ایک نالہ سا ہے بغیر آواز
ایک ہلچل سی ہے نہ سوز نہ ساز
کیوں یہ حالت ہے بے قراری کی
سانس بھی کھل کے آ نہیں سکتی
روح میں انتشار سا کیا ہے
دل کو یہ انتظار سا کیا ہے
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *