Iztirab

Iztirab

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا 
نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا 
نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے 
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا 
وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا 
کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا 
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے 
کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا 
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں 
یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا 
کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں 
تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *