مے کشو جام اٹھا لو کہ گھٹائیں آئیں اشربو کہتی ہوئی سرد ہوائیں آئیں عشق و الفت کی سزا مل گئی آخر مجھ کو میرے آگے مری معصوم خطائیں آئیں اب توجہ تو مرے حال پہ ہو جاتی ہے شکر کرتا ہوں کہ اس بت کو جفائیں آئیں خندہ زن داغ معاصی پہ ہوئی جاتی ہے لو مری شرم گنہ کو بھی ادائیں آئیں وہی مرنے کی تمنا وہی جینے کی ہوس نہ جفائیں تمہیں آئیں نہ وفائیں آئیں پھر وہ آمادہ ہوئے مجھ پہ برسنے کے لیے پھر مرے سر پہ مصیبت کی گھٹائیں آئیں اس قدر جور حسیناں سے رہا خوف زدہ حوریں آئیں تو میں سمجھا کہ بلائیں آئیں کوہ غم تھا مرا انعام محبت شاید چار جانب سے اٹھالو کی صدائیں آئیں ڈوبنے والی ہے کیا کشتئ امید اے جوشؔ موج تڑپی لب ساحل پہ دعائیں آئیں
جوش ملسیانی