Iztirab

Iztirab

ناداروں کی عید

زردار نمازی عید کے دن کپڑوں میں چمکتے جاتے ہیں 
نادار مسلماں مسجد میں جاتے بھی ہوئی شرماتے ہیں 
ملبوس پریشاں دل غمگیں افلاس کے نشتر کھاتے ہیں 
مسجد کے فرشتے انساں کو انسان سے کمتر پاتے ہیں 
قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے ایمان کا سر جھک جاتا ہے 
تسبیح سے اٹھتے ہیں شعلے سجدوں کو پسینہ آتا ہے 
وہ واسطہ جس کو فاقوں روزے روزے بے بیچارہ کیا رکھے 
دن دیکھ چکا شب دیکھ چکا قسمت کا سہارا کیا رکھے 
خالی ہوں لہو سے جس کی رگیں وہ دل کا شرارہ کیا رکھے 
ایمان کی لذت دیں کا بھرم افلاس کا مارا کیا رکھے 
تاریک دکھائی دیتی ہے دنیا یہ مہ و خورشید اسے
روزی کا سہارا ہو جس دن وہ روز ہے روز عید اسے 
اک مادر مفلس عید کے دن بچوں کو لئے بہلاتی ہے 
سر ان کا کبھی سہلاتی ہے نرمی سے کبھی سمجھاتی ہے 
قسمت پہ کبھی جھنجھلاتی ہے جینے سے کبھی تنگ آتی ہے 
زردار پڑوسن خوش ہو کر سب دیکھتی ہے اور کھاتی ہے 
پیسے کا پجاری دنیاں میں سچ پوچھو تو انساں ہو نہ سکا 
دولت کبھی ایماں لا نہ سکی سرمایہ مسلماں ہو نہ سکا 
نوخیز دلہن اور عید کا دن کپڑوں سے نمایاں بد حالی 
کمہلائے ہوئے سے غنچے تر مرجھائی ہوئی سی ہریالی 
سوکھا ہوا چہرہ غربت سے اتری ہوئی ہونٹوں کی لالی 
مایوس نظر ٹوٹا ہوا دل اور ہاتھ بھی پیسے سے خالی 
شوہر کی نظر حسرت سے بھری اٹھتی ہے تو خود جھک جاتی ہے 
احساس محبت کی دنیاں اس منظر سے تھراتی ہے 
خوں چوس رہا ہے پودوں کا اک پھول جو خنداں ہوتا ہے 
پامال بنا کر سبزوں کو اک سرو خراما ہوتا ہے 
چربی مل کر انسانوں کی اک چہرہ درخشاں ہوتا ہے 
یہ عید کے جلوے بنتے ہیں جب خون غریباں ہوتا ہے 
مفلس کی جوانی عید کے دن جب صبح سے آہیں بھرتی ہے 
دنیا یہ امیروں کی دنیا تب عید کی خوشیاں کرتی ہے 

نشور واحدی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *