Iztirab

Iztirab

نالہ اس شور سے کیوں مرا دہائی دیتا

نالہ اس شور سے کیوں مرا دہائی دیتا 
اے فلک گر تُجھے اونچا نہ سنائی دیتا 
دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا 
آسماں آنکھ کہ تِل میں ہے دکھائی دیتا 
لاکھ دیتا فلک آزار گوارہ تھے مگر 
ایک ترا نہ مُجھے درد جدائی دیتا 
دے دعا وادیٔ پر خار جنوں کو ہر گام 
داد یہ تری ہے اے آبلہ پائی دیتا 
روش اشک گرا دیں گے نظر سے اِک دن 
ہے ان آنکھوں سے یہی مُجھ کو دکھائی دیتا 
منہ سے بس کرتے کبھی یہ نہ خدا کہ بندے 
گر حریصوں کو خُدا ساری خدائی دیتا 
پنجۂ مہر کو بھی خُون شفق میں ہر روز 
غوطے کیا کیا ہے تیرا دست حنائی دیتا 
کون گھر آئینے کہ آتا اگر وُہ گھر میں 
خاکساری سے نہ جاروب صفائی دیتا 
میں ہوں وُہ صید کے پھر دام میں پھنستا جا کر 
گر قفس سے مُجھے صیاد رہائی دیتا 
خوگر ناز ہوں کس کا کے مُجھے ساغر مے 
بوسۂ لب نہیں بے چشم نمائی دیتا 
دیکھ گر دیکھنا ہے ذوقؔ کے وہ پردہ نشیں 
.دیدۂ روزن دِل سے ہے دکھائی دیتا

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *