Iztirab

Iztirab

نامہ بر بھی وہاں رسا نہ ہوا

نامہ بر بھی وہاں رسا نہ ہوا
کسی صورت مرا بھلا نہ ہوا
درد کی داد کون دے مجھ کو
تو ہی جب درد آشنا نہ ہوا
وہی مطلوب ہو وہی طالب
اک معما ہوا خدا نہ ہوا
مختصر بھی ہے اور جامع بھی
کیا ہوا کا جواب کیا نہ ہوا
ہاں کہو کچھ ہمیں بھی ہو معلوم
وہ گلہ کیا جو برملا نہ ہوا
عشق اس درد کا نہیں قائل
جو مصیبت کی انتہا نہ ہوا
تم سے تکمیل جور ہو نہ سکی
اس ادا کا بھی حق ادا نہ ہوا
اتنا پاس وفا تو ہے اس کو
بے وفائی سے بے وفا نہ ہوا
دل کشا تھی نگاہ ناز اس کی
تیر کیوں اس کا دل کشا نہ ہوا
دل کبھی خوش ہوا تو تھا لیکن
اس کا اب ذکر کیا ہوا نہ ہوا
قابل شکر ہے وہ صبر اے جوشؔ
جو کبھی دست التجا نہ ہوا

جوش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *