Iztirab

Iztirab

ناٹک

رت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا 
آج سے تم آزاد ہو 
پروازوں کی ساری سمتیں تمہارے نام ہوئیں 
جاؤ 
جنگل کی مغرور ہوا کے ساتھ اڑو 
بادل کے ہم راہ ستارے چھو آؤ 
خوشبو کے بازو تھامو اور رقص کرو 
رقص کرو 
کہ اس موسم کے سورج کی کرنوں کا تاج تمہارے سر ہے 
لہراؤ 
کہ ان راتوں کا چاند تمہاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دعا لکھے گا 
گاؤ 
ان لمحوں کی ہوائیں تم کو تمہارے گیتوں پر سنگیت دیں گی 
پتے کڑے بجائیں گے 
اور پھولوں کے ہاتھوں میں دف ہوگا 
تتلی معصومانہ حیرت سے سرشار 
سیہ شاخوں کے حلقے سے نکلی 
صدیوں کے جکڑے ہوئے ریشمی پر پھیلائے اور اڑنے لگی 
کھلی فضا کا ذائقہ چکھا 
نرم ہوا کا گیت سنا 
ان دیکھے کہساروں کی قامت ناپی 
روشنیوں کا لمس پیا 
خوشبو کے ہر رنگ کو چھو کر دیکھا 
لیکن رنگ ہوا اور خوشبو کا وجدان ادھورا تھا 
کہ رقص کا موسم ٹھہر گیا 
رت بدلی 
اور سورج کی کرنوں کا تاج پگھلنے لگا 
چاند کے ہاتھ دعا کے حرف ہی بھول گئے 
ہوا کے لب برفیلے سموں میں نیلے پڑ کر اپنی صدائیں کھو بیٹھے 
پتوں کی بانہوں کے سر بے رنگ ہوئے 
اور تنہا رہ گئے پھولوں کے ہاتھ 
برف کی لہر کے ہاتھوں تتلی کو لوٹ آنے کا پیغام گیا 
بھنورے شبنم کی زنجیریں لے کر دوڑے 
اور بے چین پروں میں ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی 
اپنے کالے ناخونوں سے 
تتلی کے پر نوچ کے بولے 
احمق لڑکی 
گھر واپس آ جاؤ 
ناٹک ختم ہوا 
.خواتین کا عالمی سال

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *