Iztirab

Iztirab

نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی

نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی 
ہزار حیف کہ گل کی خبر نہیں آتی 
رکھے ہے آئینہ کیا منہ پہ میرے اے ہم دم 
کہ زندگی مجھے اپنی نظر نہیں آتی 
بھٹکتی پھرتی ہے لیلیٰ سوار ناقے پر 
جدھر ہے وادئ مجنوں ادھر نہیں آتی 
کمر ہی کو تری پروا نہیں ہے کچھ اس کی 
وگرنہ جعد تو کب تا کمر نہیں آتی 
تری شبیہ مرے سامنے کھڑی ہے میاں 
حیا کے مارے ولے پیشتر نہیں آتی 
ہوا ہوں آہ میں جس پر غرور پر عاشق 
کنیز اس کی کبھی میرے گھر نہیں آتی 
قلق سے ہوتی ہے کچھ دل کی میرے یہ حالت 
کہ نیند رات کو دو دو پہر نہیں آتی 
شب وصال کب آتی ہے میرے گھر اے چرخ 
کہ اس کے پیچھے سے دوڑی سحر نہیں آتی 
گیا ہے غم مرے نامے کو لے کے کچھ ایسا 
کہ آج تک خبر نامہ بر نہیں آتی 
خرام فتنۂ روز جزا بہ ایں شوخی 
ترے خرام کے عہدے سے بر نہیں آتی 
میں ترک عشق کو کہتا ہوں مصحفیؔ تجھ سے 
یہ بات دھیان میں تیرے مگر نہیں آتی 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *