Iztirab

Iztirab

نظر میں بھی نہیں اب گھومتا پیمانہ برسوں سے

نظر میں بھی نہیں اب گھومتا پیمانہ برسوں سے 
قسم کھانے کو بھی دیکھا نہیں مے خانہ برسوں سے 
نہ پینے کو ملی اک گھونٹ بے باکانہ برسوں سے 
نہیں اب کار فرما جرأت رندانہ برسوں سے 
سر صحرا جدھر دیکھو اداسی ہی اداسی ہے 
ادھر آیا نہیں شاید کوئی دیوانہ برسوں سے 
کبھی خلوت کبھی جلوت کبھی ہنسنا کبھی رونا 
مرتب کر رہے ہیں ہم بھی اک افسانہ برسوں سے 
یہ تکلیف قدم بوسی یہ انداز پذیرائی 
ہمارا منتظر تھا غالباً ویرانہ برسوں سے 
میسر آئی کیا ہم کو گدائی آپ کے در کی 
گزرتی ہے ہماری زندگی شاہانہ برسوں سے 
وہ اپنی ذات کے صحرا میں شاید تیرا جویا ہے 
نظر آیا نہیں احباب کو دیوانہ برسوں سے 
نصیرؔ اب اپنی آنکھیں اٹھ نہیں سکتیں کسی جانب 
مرے پیش نظر ہے اک تجلی خانہ برسوں سے

پیر سید نصیر الدین نصیر شاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *