نظر کسی کی نظر سے نہیں الجھتی تھی
وہ دن بھی تھے کہ یوں ہی زندگی گزرتی تھی
ستارے اپنے لیے خواہشوں کی منزل تھے
حسین رات ہمیں چاندنی پلاتی تھی
رہے تھے اپنی ہواؤں میں ایک عمر مگر
بکھر پڑے تو ہر اک گام اپنی ہستی تھی
یہی بہت تھا کہ کچھ لوگ آ کے کہتے تھے
وہ میرا ذکر بہت مخلصانہ کرتی تھی
نظر میں پیار بھی تھا اور تکلفات بھی تھے
کہا کریں گے کبھی ہم عجیب لڑکی تھی
خموش رہتی تھی گہرے سمندروں کی طرح
وہ آنکھیں جن سے نری شاعری بکھرتی تھی
اسے ملے تو پھر اس بات کا سراغ ملا
ہمیں یہ زندگی کیوں اتنی پیاری لگتی تھی
نہ جانے کتنے ہی صفحوں پہ دل بکھیرا مگر
نہ کہہ سکے تو وہ اک بات ہی جو کہنی تھی
محمود شام