Iztirab

Iztirab

نظم

افق ہے نام دوری کا 
افق کے اس طرف کچھ بھی نہیں ہے لوگ کہتے ہیں 
مگر یہ لوگ وہ ہیں جو مرے خوابوں کی بھی تکذیب کرتے ہیں 
اگرچہ خواب ہی زندہ حقیقت ہیں 

بہت مدت ہوئی بچھڑے ہوئے تم سے 
مگر ہر رات اب بھی خواب میں آ کر 
وفا کے عہد کی تجدید کر جاتی ہو تم 
چپکے سے کہتی ہو 
افق کے اس طرف کچھ بھی نہیں 
میں بھی نہیں تم بھی نہیں لیکن 
افق کے اس طرف جو کچھ ہے وہ زندہ حقیقت ہے 
افق کے پار ہی اپنا ملن ہوگا 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *