Iztirab

Iztirab

نوجوان خاتون سے

حجاب فتنہ پرور اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا 
خود اپنے حسن کو پردا بنا لیتی تو اچھا تھا 
تری نیچی نظر خود تیری عصمت کی محافظ ہے 
تو اس نشتر کی تیزی آزما لیتی تو اچھا تھا 
تری چین جبیں خود اک سزا قانون فطرت میں 
اسی شمشیر سے کار سزا لیتی تو اچھا تھا 
یہ تیرا زرد رخ یہ خشک لب یہ وہم یہ وحشت 
تو اپنے سر سے یہ بادل ہٹا لیتی تو اچھا تھا 
دل مجروح کو مجروح تر کرنے سے کیا حاصل 
تو آنسو پونچھ کر اب مسکرا لیتی تو اچھا تھا 
ترے زیر نگیں گھر ہو محل ہو قصر ہو کچھ ہو 
میں یہ کہتا ہوں تو ارض و سما لیتی تو اچھا تھا 
اگر خلوت میں تو نے سر اٹھایا بھی تو کیا حاصل 
بھری محفل میں آ کر سر جھکا لیتی تو اچھا تھا 
ترے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے 
اگر تو ساز بے داری اٹھا لیتی تو اچھا تھا 
عیاں ہیں دشمنوں کے خنجروں پر خون کے دھبے 
انہیں تو رنگ عارض سے ملا لیتی تو اچھا تھا 
سنانیں کھینچ لی ہیں سرپھرے باغی جوانوں نے 
تو سامان جراحت اب اٹھا لیتی تو اچھا تھا 
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن 
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا 

اسرار الحق مجاز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *