Iztirab

Iztirab

نوحہ

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی 
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی 
ڈرتا ہوں کہیں خشک نہ ہو جائے سمندر 
راکھ اپنی کبھی آپ بہاتا نہیں کوئی 
اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہوگی 
یوں موت کو سینے سے لگاتا نہیں کوئی 
مانا کہ اجالوں نے تمہیں داغ دئے تھے 
بے رات ڈھلے شمع بجھاتا نہیں کوئی 
ساقی سے گلا تھا تمہیں مے خانے سے شکوہ 
اب زہر سے بھی پیاس بجھاتا نہیں کوئی 
ہر صبح ہلا دیتا تھا زنجیر زمانہ 
کیوں آج دوانے کو جگاتا نہیں کوئی 
ارتھی تو اٹھا لیتے ہیں سب اشک بہا کے 
ناز دل بیتاب اٹھاتا نہیں کوئی 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *