Iztirab

Iztirab

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے

نگاہ آرزو آموز کا چرچا نہ ہو جائے 
شرارت سادگی ہی میں کہیں رسوا نہ ہو جائے 
انہیں احساس تمکیں ہو کہیں ایسا نہ ہو جائے 
جو ہونا ہو ابھی اے جرأت رندانہ ہو جائے 
بظاہر سادگی سے مسکرا کر دیکھنے والو 
کوئی کم بخت ناواقف اگر دیوانہ ہو جائے 
بہت ہی خوب شے ہے اختیاری شان خودداری 
اگر معشوق بھی کچھ اور بے پروا نہ ہو جائے 
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں 
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے 
الٰہی دل نوازی پھر کریں وہ مے فروش آنکھیں 
الٰہی اتحاد شیشہ و پیمانہ ہو جائے 
مری الفت تعجب ہو گئی توبہ معاذ اللہ 
کہ منہ سے بھی نہ نکلے بات اور افسانہ ہو جائے 
یہ تنہائی کا عالم چاند تاروں کی یہ خاموشی 
حفیظؔ اب لطف ہے اک نعرۂ مستانہ ہو جائے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *