Iztirab

Iztirab

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا 
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا 
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو 
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا 
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں 
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا 
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی 
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا 
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی 
دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا 
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی 
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا 
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ 
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *