Iztirab

Iztirab

نہیں عشق میں اِس کا تّو رنج ہمیں کے قرار و شکیب ذرا نہ رہا

نہیں عشق میں اِس کا تّو رنج ہمیں کے قرار و شکیب ذرا نہ رہا 
غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اُور بلا سے رہا نہ رہا 
دیا اپنی خُودی کو جُو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا 
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کہ سوا نہ رہا 
نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کہ عیب و ہنر 
پڑی اپنی برائیوں پر جُو نظر تُو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا 
تیرے رخ کہ خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ پہ نہ فتنۂ روز جزا 
تیری زلف کہ دھیان میں کون سی شب میرے سر پہ ہجوم بلا نہ رہا 
ہمیں ساغر بادہ کہ دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب 
کے یہ عہد نشاط یہ دور طرب نہ رہے گا جہاں میں سدا نہ رہا 
کئی روز میں آج وہ مہر لقا ہوا مرے جو سامنے جلوہ نما 
مُجھے صبر و قرار ذرا نہ رہا ، اسے پاس حجاب و حیا نہ رہا 
تیرے خنجر و تیغ کی آب رواں ہوئی جب کے سبیل ستم زدگاں 
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنۂ آب بقا نہ رہا 
مُجھے صاف بتائے نگار اگر تُو یہ پوچھوں میں رو رو کہ خون جگر 
ملے پاؤں سے کس کہ ہیں ، دیدۂ تر کف پا پہ جو رنگ حنا نہ رہا 
اسے چاہا تھا میں نے کے روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں 
کئے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا 
لگے یُوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کے تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم 
ولے ناز و کرشمہ کی تیغ دو دم لگی ایسی کے تسمہ لگا نہ رہا 
ظفرؔ آدمی اِس کو نہ جانئے گا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا 
.جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی ، جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا 

بہادر شاہ ظفر 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *