نہیں کرتی اثر فریاد میری کوئی کس طرح دیوے داد میری فغان جاں گسل رکھتا ہوں لیکن نہیں سنتا مرا صیاد میری تو اے پیغام بر جھوٹی ہی کچھ کہہ کہ خوش ہو خاطر ناشاد میری میں تجھ کو یاد کرتا ہوں الٰہی ترے بھی دل میں ہوگی یاد میری نہیں ہوتا مقید میں کسی کا طبیعت ہے بہت آزاد میری ادھر اے مصحفیؔ کیا دیکھتا ہے غزل سن آ مرے استاد میری
غلام ہمدانی مصحفی