Iztirab

Iztirab

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم
دعا تو خیر دعا سے امید خیر بھی ہے
یہ مدعا ہے تو انجام مدعا معلوم
ہوا نہ راز رضا فاش وہ تو یہ کہیے
مرے نصیب میں تھی ورنہ سعی نا معلوم
مری وفا کے سوا غایت جفا کیوں ہو
تری جفا کے سوا حاصل وفا معلوم
کچھ ان کے رحم پہ تھی یوں ہی زندگی موقوف
کہ ان کو راز محبت بھی ہو گیا معلوم
ترے خیال کے اسرار بے خودی میں کھلے
ہمیں چھپا نہ سکے ورنہ دل کو کیا معلوم
فریب امن میں کچھ مصلحت تو ہے ورنہ
سکون کشتی و توفیق ناخدا معلوم
وہ التفات کہ تھا اس کی انتہا بھی ہے
خدا کی مار کہ دل کو یہی نہ تھا معلوم
یہ زندگی کی ہے روداد مختصر فانیؔ
وجود درد مسلم علاج نا معلوم

فانی بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *