نہ تھا کچھ تُو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تُو خدا ہوتا ڈبویا مٰجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا ہوا جب غم سے یوں بے ، حس تو غم کیا سر کہ کٹنے کا نہ ہوتا گر جدا تن سے ، تُو زانو پر دھرا ہوتا ہوئی مدت کے غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے . وہ ہر اک بات پر کہنا ، کے یوں ہوتا تُو کیا ہوتا
مرزا غالب