Iztirab

Iztirab

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے
کہو کوئی کیسے محبت چھپا لے
کرے کوئی کیا گر وہ آئیں یکایک
نگاہوں کو روکے کہ دل کو سنبھالے
چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے
غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے
قیامت ہیں ظالم کی نیچی نگاہیں
خدا جانے کیا ہو جو نظریں اٹھا لے
کروں ایسا سجدہ وہ گھبرا کے کہہ دیں
خدا کے لیے اب تو سر کو اٹھا لے
تمہیں بندہ پرور ہمیں جانتے ہیں
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
بس اتنی سی دوری یہ میں ہوں یہ منزل
کہاں آ کے پھوٹے ہیں پاؤں کے چھالے
قمرؔ میں ہوں مختار تنظیم شب کا
ہیں میرے ہی بس میں اندھیرے اجالے

قمر جلالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *