Iztirab

Iztirab

نہ سمجھے گل رخوں کے ہم اشارے

نہ سمجھے گل رخوں کے ہم اشارے 
ہمیں پتھر نہ مارے پھول مارے 
نہ دیکھے اپنی کشتی نے تو کیا ہے 
سنا تو ہے کہ ہوتے ہیں کنارے 
خلاصہ عمر بھر کی عاشقی کا 
ہمارے تم نہیں ہم ہیں تمہارے 
محبت دوستی ہے دشمنوں سے 
ہوئے ہیں دل کے دشمن دل کے پیارے 
تمہیں تم ہو نہیں کچھ بھی کہیں اور 
کہاں تشبیہ کیسے استعارے 
سنور جائے گا خود ہی نظم عالم 
کوئی پہلے ترے گیسو سنوارے 
دل پر سوز و آہ آتشیں سے 
نہیں آنسو نہیں ہیں جو شرارے 
محبت فاتح عالم ہے لیکن 
محبت میں وہی جیتے جو ہارے 
ذہینؔ آہستہ کوئے دوست میں چل 
کہ آسودہ یہاں ہیں چاند تارے 

ذہین شاہ تاجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *