Iztirab

Iztirab

نہ مرا مکاں ہی بدل گیا نہ ترا پتہ کوئی اور ہے

نہ مرا مکاں ہی بدل گیا نہ ترا پتہ کوئی اور ہے
مری راہ پھر بھی ہے مختلف ترا راستہ کوئی اور ہے
پس مرگ خاک ہوئے بدن وہ کفن میں ہوں کہ ہوں بے کفن
نہ مری لحد کوئی اور ہے نہ تری چتا کوئی اور ہے
وہ جو مہر بہر نکاح تھا وہ دلہن کا مجھ سے مزاح تھا
یہ تو گھر پہنچ کے پتہ چلا مری اہلیہ کوئی اور ہے
مری قاتلا مری لاش سے یہ بیان لینے کو آئی تھی
نہ دے ملزمہ کو سزا پولس مری قاتلا کوئی اور ہے
جو سجائی جاتی ہے رات کو وہ ہماری بزم خیال ہے
جو سڑک پہ ہوتا ہے رات دن وہ مشاعرہ کوئی اور ہے
کبھی میرؔ و داغؔ کی شاعری بھی معاملہ سے حسین تھی
مگر اب جو شعر میں ہوتا ہے وہ معاملہ کوئی اور ہے
تجھے کیا خبر کہ میں کس لیے تجھے دیکھتا ہوں کن انکھیوں سے
کہ براہ راست نظارے میں مجھے دیکھتا کوئی اور ہے
یہ جو تیتر اور چکور ہیں وہی پکڑیں ان کو جو چور ہیں
میں چکور اکور کا کیا کروں مری فاختہ کوئی اور ہے
مجھے ماں کا پیار نہیں ملا مگر اس کا باپ سے کیا گلہ
مری والدہ تو یہ کہتی ہے تری والدہ کوئی اور ہے
دلاور فگار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *