Iztirab

Iztirab

نہ میں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں

نہ میں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہوں 
کوئی خوب رو لے تُو ہاں بیچتا ہوں 
وُہ مے جس کو سب بیچتے ہیں چھپا کر 
میں اس مے کو یارو عیاں بیچتا ہوں 
یہ دِل جس کو کہتے ہیں عرش الٰہی 
سُو اِس دِل کو یارو میں یاں بیچتا ہوں 
ذرا مری ہمت تُو دیکھو عزیزو 
کہاں کی ہے جنس اُور کہاں بیچتا ہوں 
لیے ہاتھ پر دِل کو پھرتا ہوں یارو 
کوئی مُول لیوے تُو ہاں بیچتا ہوں 
وُہ کہتا ہے جی کوئی بیچے تُو ہم لیں 
تُو کہتا ہوں لو ہاں میاں بیچتا ہوں 
میں ایک اپنے یوسف کی خاطر عزیزو 
یہ ہستی کا سب کارواں بیچتا ہوں 
جُو پورا خریدار پاؤں تُو یارو 
میں یہ سب زمین و زماں بیچتا ہوں 
زمیں آسماں عرش و کرسی بھی کیا ہے 
کوئی لے تُو میں لا مکاں بیچتا ہوں 
جسے مُول لینا ہو لے لے خُوشی سے 
میں اِس وقت دونُوں جہاں بیچتا ہوں 
بکی جنس خالی دکاں رہ گئی ہے 
سُو اب اس دکاں کو بھی ہاں بیچتا ہوں 
مُحبت کہ بازار میں اے نظیرؔ اب 
.میں عاجز غریب اپنی جاں بیچتا ہوں 

نظیر اکبر آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *