Iztirab

Iztirab

نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا

نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا 
شب فراق میں ہم تلملائے ہیں کیا کیا 
ذرا تو دیکھ تو صناع دست قدرت نے 
طلسم خاک سے نقشے اٹھائے ہیں کیا کیا 
میں اس کے حسن کے عالم کی کیا کروں تعریف 
نہ پوچھ مجھ سے کہ عالم دکھائے ہیں کیا کیا 
ذرا تو دیکھ تو گھر سے نکل کے اے بے مہر 
کہ دیکھنے کو ترے لوگ آئے ہیں کیا کیا 
کوئی پٹکتا ہے سر کوئی جان کھوتا ہے 
ترے خرام نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا 
ذرا تو آن کے آب رواں کی سیر تو کر 
ہماری چشم نے چشمے بہائے ہیں کیا کیا 
نگاہ غور سے ٹک مصحفیؔ کی جانب دیکھ 
جگر پہ اس نے ترے زخم کھائے ہیں کیا کیا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *