Iztirab

Iztirab

نہ پُوچھو کے قائمؔ کا کیا حال ہے

نہ پُوچھو کے قائمؔ کا کیا حال ہے 
کچھ اِک ڈھیر ہڈیوں کا یا کھال ہے 
جُو بیٹھے تو ہے روئے قالیں کا نقش 
کھڑا ہو تو کاغذ کی تمثال ہے 
کھٹکتا ہے پہلو میں یُوں ہم نشیں 
کہے تُو یہ دل تیر کی بھال ہے 
گرفتار ہے جو تیری زلف کا 
وہ ہر قید سے فارغ البال ہے 
اٹھا روند ڈالے اِک عالم کہ دل 
بھلا شوخ یہ بھی کوئی چال ہے 
الجھتا ہے جی شیخ کی ریش دیکھ 
وہ سچ ہے مثل بال جنجال ہے 
دھڑکنے کا دل پر ہے گاہے ہجوم 
گہے چشم گریہ کی پامال ہے 
یہ گویا در دولت عشق پر 
دل و دیدہ سامان گھڑیال ہے 
خُوش آئی ہے قائمؔ یہی گر زمیں 
.تُو پھر کہہ نہ مضموں کا کیا کال ہے 

قائم چاند پوری 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *