Iztirab

Iztirab

نیند مستوں کو کہاں اُور کدھر کا تکیہ

نیند مستوں کو کہاں اُور کدھر کا تکیہ 
خشت خم خانہ ہے یاں اپنے تُو سر کا تکیہ 
لخت دِل آ کہ مسافر سے ٹھہرتے ہیں یہاں 
چشم ہے ہم سے گداؤں کی گزر کا تکیہ 
جس طرف آنکھ اٹھا دیکھیے ہو جائے اثر 
ہم تُو رکھتے ہیں فقط اپنی نظر کا تکیہ 
چین ہرگز نہیں مخمل کک اسے تکیے پر 
اس پری کہ لیے ہو حور کہ پر کا تکیہ 
ہاتھ اپنے کہ سوا اور تُو کیا ہو ہیہات 
والہ و در بہ در و خاک بسر کا تکیہ 
سر تو چاہے ہے میرا ہووے میسر ترے 
ہاتھ کا بازو کا زانو کا کمر کا تکیہ 
یہ تُو حاصل ہے کہاں بھیج دے لیکن مُجھ کو 
جس میں بالوں کی ہو بو ترے ہو سر کا تکیہ 
تیکھے پن کہ تیرے قربان اکڑ کہ صدقے 
کیا ہی بیٹھا ہے لگا کر کہ سپر کا تکیہ 
گرچہ ہم سخت گنہ گار ہیں لیکن واللہ 
دِل میں جُو ڈر ہے ہمیں ہے اِسی ڈر کا تکیہ 
گریہ و آہ و فغاں نالہ و یا رب فریاد 
سب کو ہے ہر شب و روز اپنے اثر کا تکیہ 
رند و آزاد ہوئے چھوڑ علاقہ سب کا 
ڈھونڈھتے کب ہیں پدر اور پسر کا تکیہ 
گر بھروسا ہے ہمیں اب تُو بھروسا ترا 
اور تکیہ ہے اگر ترے ہی در کا تکیہ 
شوق سے سوئیے سر رکھ کہ میرے زانو پر 
اس کو مت سمجھئے کچھ خوف و خطر کا تکیہ 
جب تلک آپ نہ جاگیں گے رہے گا یُوں ہی 
سرکے گا تب ہی کے جب کہیے گا سرکا تکیہ 
لطف ایزدی ہی سے امید ہے انشا اللہ 
.کچھ نہیں رکھتے ہیں ہم فضل و ہنر کا تکیہ 

انشاءاللہ خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *