Iztirab

Iztirab

نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں

نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں 
عاشق ہوں میں کسی کا اور آفت رسیدہ ہوں 
ہستی سے اپنی مجھ کو نہیں مطلق آگہی 
عمر گزشتہ یا کہ غزال رمیدہ ہوں 
نکلے ہے میری وضع سے اک شورش جنوں 
دریا نہیں میں سیل گریباں دریدہ ہوں 
مرغان باغ میں مرے نالے کا شور ہے 
ہر چند میں ابھی نفس نا کشیدہ ہوں 
پہنچے سزا کو اپنی جو منہ پر مرے چڑھے 
میں دست روزگار میں تیغ کشیدہ ہوں 
جاتا ہے جلد قافلۂ عمر کس قدر 
مہلت نہیں ہے اتنی کہ ٹک آرمیدہ ہوں 
کون اٹھ گیا ہے پاس سے میرے جو مصحفیؔ 
روتا ہوں زار زار پڑا آب دیدہ ہوں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *