Iztirab

Iztirab

وحشت تھی ہم تھے سایہ دیوار یار تھا

وحشت تھی ہم تھے سایہ دیوار یار تھا
یا یہ کہو کہ سر پہ کوئی جن سوار تھا
بگڑا چمن میں کل ترے وحشی کا جب مزاج
جھونکا نسیم کا بھی اسے ناگوار تھا
لالے کا داغ دیکھ کے چتون بدل گئی
تیور سے صاف راز جنوں آشکار تھا
پہلے تو آنکھیں پھاڑ کے دیکھا ادھرادھر
دامن پھر اک اشارے میں بس تار تار تھا
اللہ رے توڑ نیچی نگاہوں کے تیر کا
اف بھی نہ کرنے پائے تھے اور دل کے پار تھا
نیرنگ حسن و عشق کی وہ آخری بہار
تربت تھی میری اور کوئی اشک بار تھا
جھک جھک کے دیکھتا ہے فلک آج تک اسے
جس سرزمیں پہ میرا نشان مزار تھا
ساحل کے پاس یاسؔ نے ہمت بھی ہار دی
کچھ ہاتھ پاؤں مارتا ظالم تو پار تھا

یگانہ چنگیزی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *