ورق وہی تھا مگر دوسری پرت چاہی کہ میں نے اس کی محبت سے منفعت چاہی مزا عجب تھا محبت بھری لڑائی میں کہ چھیڑ کر اسے فوری مزاحمت چاہی بچھڑتے وقت اسے مڑ کے بھی نہیں دیکھا تمام عمر جدائی میں عافیت چاہی میں اور ہی تھا جدا ہی تھا اس زمانے سے اور اس نے قیس کے جیسی مطابقت چاہی خود اپنی زیست کو برباد کر لیا آخر کہ جس نے مجھ سے ذرا بھی منافقت چاہی بس ایک بار مجھے کھول کر پڑھا عابدؔ پھر اس نے میری محبت سے معذرت چاہی نہ جانے کیوں مجھے ٹھکرا دیا زمانے نے نہ سیم و زر کی طلب کی نہ سلطنت چاہی