وقت کے کتنے ہی دھاروں سے گزرنا ہے ابھی زندگی ہے تو کئی رنگ سے مرنا ہے ابھی کٹ گیا دن کا دہکتا ہوا صحرا بھی تو کیا رات کے گہرے سمندر میں اترنا ہے ابھی ذہن کے ریزے تو پھیلے ہیں فضا میں ہر سو جسم کو ٹوٹ کے ہر گام بکھرنا ہے ابھی یہ سجے بام جواں چاندنی یوں لگتا ہے اک ستم اور ترے شہر نے کرنا ہے ابھی ایک اک رنگ اڑا لے گئی بے مہر ہوا کتنے خاکے ہیں جنہیں شامؔ جی بھرنا ہے ابھی