Iztirab

Iztirab

وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع

وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع 
کیے بلبل نے خار آشیاں جمع 
لگا دیتا ہے ان کو چن کے آتش 
ہما کر کے ہمارے استخواں جمع 
چمن میں کس کے آنے کی خبر ہے 
کرے ہے پھول چن چن باغباں جمع 
ہے صحبت کا پریشانوں کے یہ رنگ 
ہوا سے ہوویں جو برگ خزاں جمع 
سفر کی مجھ سے کیا کہتے ہو جاؤ 
کروں کیا گر ہوا ہے کارواں جمع 
ابھی موے پریشاں سے کسی کے 
مری خاطر نہیں اے دوستاں جمع 
فلک نے سنگ پھینکا تفرقے کا 
ہوئے دو چار صاحب دل جہاں جمع 
نہ خرچ مصحفیؔ کی پوچھو اس سے 
توکل کا ہے مال بے کراں جمع 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *