Iztirab

Iztirab

وہیں ہیں دل کہ قرائن تمام کہتے ہیں

وہیں ہیں دل کہ قرائن تمام کہتے ہیں 
وہ اک خلش کے جسے تیرا نام کہتے ہیں 
تم آ رہے ہو کے بجتی ہیں میری زنجیریں 
نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں 
یہی کنار فلک کا سیہ تریں گوشہ 
یہی ہے مطلع ماہ تمام کہتے ہیں 
پیو کہ مفت لگا دی ہے خون دل کی کشید 
گراں ہے اب کہ مئے لالہ فام کہتے ہیں 
فقیہ شہر سے مے کا جواز کیا پوچھیں 
کے چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں 
نوائے مرغ کو کہتے ہیں اب زیان چمن 
کھلے نہ پھول اسے انتظام کہتے ہیں 
کہو تو ہم بھی چلیں فیض اب نہیں سر دار 
.وہ فرق مرتبہ خاص و عام کہتے ہیں 

فیض احمد فیض 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *