وہی طویل سی راہیں سفر وہی تنہا بڑا ہجوم ہے پھر بھی ہے زندگی تنہا ترے بغیر اجالے بھی تیرہ ساماں ہیں بھٹک رہی ہے نگاہوں کی روشنی تنہا جہاں جہاں بھی گئی غم کے آس پاس رہی کسی مقام پہ دیکھی نہیں خوشی تنہا شعور دید کا انجام دیکھیے کیا ہو ہجوم وہم و گماں اور آگہی تنہا خود اپنے شہر میں بھی اب تو ہم کچھ ایسے ہیں دیار غیر میں جیسے اک اجنبی تنہا کسی نے ساتھ نباہا بھی تو بچھڑنے کو رہی ہے اپنے پرایوں میں زندگی تنہا خود اپنے آپ سے بیگانگی کا عالم ہے شریک بزم نگاراں بھی ہیں رشیؔ تنہا
رشی پٹیالوی