وہ آئیں گے وہ آتے ہیں وہ آنے کو ہیں وہ آئے تصور کو وہ بہلائیں تصور ہم کو بہلائے وہ چمکا چاند چھٹکی چاندنی تارے نکل آئے وہ کیا آئے زمیں پر آسماں نے پھول برسائے ازل سے تا ابد ہے جلوہ فرما حسن صد شیو ہوہی صاحب نظر ہے جو برابر دیکھتا جائے کہاں انساں کہاں عقل و خرد کی بیڑیاں توبہ ذرا بھی عقل ہو تو آدمی دیوانہ ہو جائے وجود نور پر موقوف ہیں آثار ظلمت بھی نہ ہوگی روشنی تو پھر کہاں جائیں گے یہ سائے ذھینؔ آسودگی راہ طلب میں ہے زیاں کاری ہزاروں کوس ہیں وہ دور جو ایک لمحہ سستائے
ذہین شاہ تاجی