Iztirab

Iztirab

وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا

وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا 
ہمارے آپ کے ہرگز وہ ماجرا نہ رہا 
سر نیاز رہا زیر پائے یاد مدام 
حنا کی طرح میں قدموں سے کب لگا نہ رہا 
دل آشنائی کو چاہے کسی کی خاک مرا 
کہ آشنا جو ہوا تھا وہ آشنا نہ رہا 
ہمیشہ جس سے پہنچتا رہے تھا دل کو الم 
ہزار شکر کہ وہ درد بے دوا نہ رہا 
جب آپ ہم نے بتاں ترک آشنائی کی 
کسی بھی طرح کا تم سے ہمیں گلا نہ رہا 
گلوں کے چہروں پہ زردی سی پھر رہی ہے تمام 
گئی بہار وہ موسم کا ابتدا نہ رہا 
صفائے سینہ سے پھسلا نہ کب دل عاشق 
کہ چاہ ناف میں وہ خوں گرفتہ جا نہ رہا 
ہزار حرف زباں سوز درمیاں آئے 
ہے سچ تو یہ کہ محبت میں وہ مزا نہ رہا 
چمن کو چھوڑ ہم ایسے چلے گئے سوئے دشت 
کہ نام کو بھی پھر اندیشۂ صبا نہ رہا 
یہ کس کے چاہ زنخداں کی فکر میں ڈوبا 
تمام رات جو زانو سے سر جدا نہ رہا 
عجب نہ جان گر آ جائے سلطنت کو زوال 
کسی کے سر پہ سدا سایۂ ہما نہ رہا 
نشان مصحفیٔؔ خستہ پوچھتے کیا ہو 
وہ خاک راہ تو اب مثل نقش پا نہ رہا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *