Iztirab

Iztirab

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا

وہ اجنبی تھا غیر تھا کس نے کہا نہ تھا 
دل کو مگر یقین کسی پر ہوا نہ تھا 
ہم کو تو احتیاط غم دل عزیز تھی 
کچھ اس لیے بھی کم نگہی کا گلا نہ تھا 
دست خیال یار سے پھوٹے شفق کے رنگ 
نقش قدم بھی رنگ حنا کے سوا نہ تھا 
ڈھونڈا اسے بہت کہ بلایا تھا جس نے پاس 
جلوہ مگر کہیں بھی صدا کے سوا نہ تھا 
کچھ اس قدر تھی گرمئ بازار آرزو 
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا 
کیسے کریں گے ذکر حبیب جفا پسند 
جب نام دوستوں میں بھی لینا روا نہ تھا 
کچھ یوں ہی زرد زرد سی ناہیدؔ آج تھی 
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا 

کشور ناہید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *