وہ جو ملتے تھے کبھی ہم سے دوانوں کی طرح
آج یوں ملتے ہیں جیسے کبھی پہچان نہ تھی
وہ جو ملتے تھے کبھی ہم سے دوانوں کی طرح
دیکھتے بھی ہیں تو یوں میری نگاہوں میں کبھی
اجنبی جیسے ملا کرتے ہیں راہوں میں کبھی
اس قدر ان کی نظر ہم سے تو انجان نہ تھی
وہ جو ملتے تھے کبھی ہم سے دوانوں کی طرح
ایک دن تھا کبھی یوں ہی جو مچل جاتے تھے
کھیلتے تھے مری زلفوں سے بہل جاتے تھے
وہ پریشاں تھے مری زلف پریشان نہ تھی
وہ جو ملتے تھے کبھی ہم سے دوانوں کی طرح
وہ محبت وہ شرارت مجھے یاد آتی ہے
دل میں اک پیار کا طوفان اٹھا جاتی ہے
تھی مگر ایسی تو الجھن میں مری جان نہ تھی
وہ جو ملتے تھے کبھی ہم سے دوانوں کی طرح
مجروح سلطانپوری