Iztirab

Iztirab

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر 
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں 
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو 
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم 
گلہ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی 
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی 
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا 
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی 
تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا 
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا 
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خان مومن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *