Iztirab

Iztirab

وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے

وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے 
حیراں ہوں میں کس طرح ملاقات کی ٹھہرے 
ہر روز کا ملنا ہے جو دشوار تو پیارے 
اتنا تو کرو قصد کہ اک رات کی ٹھہرے 
جس وقت کہ ہم آئیں تو یہ چاہئے تم کو 
اوروں سے نہ پھر حرف و حکایات کی ٹھہرے 
اے دیدۂ تر تم بھی جھڑی اپنی لگا دو 
اس سال تو برسات میں برسات کی ٹھہرے 
کس چیز پہ پھر ہم ہوں گفتار تعین 
دن رات کی ٹھہرے ہے نہ اوقات کی ٹھہرے 
جب کاٹ کے دل پیر گئی ہووے جگر میں 
پھر کیوں نہ چھری آپ کی اس بات کی ٹھہرے 
ہر روز یہ چاہے ہے تری چشم کی گردش 
اس مرکز خاکی پہ کچھ آفات کی ٹھہرے 
اے مصحفیؔ اس وقت وہ مہماں ہے تمہارے 
ہے گھات کی جاگہ تو، اگر گھات کی ٹھہرے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *