Iztirab

Iztirab

وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی

وہ دیکھتے جاتے ہیں کنکھیوں سے ادھر بھی
چلتا ہوا جادو ہے محبت کی نظر بھی
اٹھنے کی نہیں دیکھیے شمشیر نظر بھی
پہلے ہی لچکتی ہے کلائی بھی کمر بھی
پھوٹیں مری آنکھیں جو کچھ آتا ہو نظر بھی
دنیا سے الگ چیز ہے فرقت کی سحر بھی
ساقی کبھی مل جائے محبت کا ثمر بھی
ان آنکھوں کا صدقہ کوئی ساغر تو ادھر بھی
بیتاب ہوں کیا چیز چرا لی ہے نظر نے
ہونے کو تو دل بھی ہے مرے پاس جگر بھی
گھر سمجھا ہوں جس کو کہیں تربت تو نہیں ہے
آتی ہے یہاں شام کی صورت میں سحر بھی
خاموش ہوں میں اور وہ کچھ پوچھ رہے ہیں
ماتھے پہ شکن بھی ہے عنایت کی نظر بھی
اس کے لب رنگیں کی نزاکت ہے نہ رنگت
غنچے بھی بہت دیکھ لیے ہیں گل تر بھی
آتی ہے نظر دور ہی سے حسن کی خوبی
کچھ اور ہی ہوتی ہے جوانی کی نظر بھی
ہٹتی ہے جو آئینہ سے پڑ جاتی ہے دل پر
کیا شوخ نظر ہے کہ ادھر بھی ہے ادھر بھی
بیمار محبت کا خدا ہے جو سنبھل جائے
ہے شام بھی مخدوش جدائی کی سحر بھی
مے خانہ عشرت نہ سہی کنج غریباں
آنکھوں کے چھلکتے ہوئے ساغر ہیں ادھر بھی
مل جائیں اگر مجھ کو تو میں خضر سے پوچھوں
دیکھی ہے کہیں شام جدائی کی سحر بھی
اے شوق شہادت کہیں قسمت نہ پلٹ جائے
باندھی تو ہے تلوار بھی قاتل نے کمر بھی
اے دل تری آہیں تو سنیں کانوں سے ہم نے
اب یہ تو بتا اس پہ کریں گی یہ اثر بھی
اک رشک کا پہلو تو ہے سمجھوں کہ نہ سمجھوں
گردن بھی ہے خم آپ کی نیچی ہے نظر بھی
کچھ کان میں کل آپ نے ارشاد کیا تھا
مشتاق اسی بات کا ہوں بار دگر بھی
سوفار بھی رنگین کئے ہاتھ بھی اس نے
آیا ہے بڑے کام میرا خون جگر بھی
چھپتی ہے کوئی بات چھپائے سے سر بزم
اڑتے ہو جو تم ہم سے تو اڑتی ہے خبر بھی
یوں ہجر میں برسوں کبھی لگتی ہی نہیں آنکھ
سو جاتا ہوں جب آ کے وہ کہہ دیتی ہیں مر بھی
کھلتا ہی نہیں بیخودؔ بدنام کا کچھ حال
کہتے ہیں فرشتہ بھی اسے لوگ بشر بھی

بیخود دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *